داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت)
شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو بیعت فرمایا اور صرف سترہ روز میں تربیت فرما کر اجازت اور خلافت سے سرفراز فرمایا‘ اس کے لیے ایک دعوت کی اور سارے مریدین اور مسترشدین کو اس میں شریک کیا اور شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت اور خلافت کا اعلان فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ بیٹا ملتان میں جاکر خلق خدا کو فیض پہنچاؤ۔ بہت سے پرانے مریدین کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈالا‘ ان میں سے بعض مریدین کے دلوں میں حسد بھی پیدا ہوا یہاں تک کہ بعض کا حال تو یہ ہوا کہ ان کو اپنے شیخ، شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے بدگمانی سی ہوگئی کہ اپنا عزیز اور قرابت دار ہونے کی وجہ سے ان کو صرف سترہ روز میں اجازت سے سرفراز فرمادیا اور ہم لوگ کتنے سالوں سے خانقاہ کی چٹائیاں گھس رہے ہیں ہماری طرف شاید شیخ کی توجہ نہیں ہے‘ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کو فراست باطنی سے کسی طرح مریدین کی بدگمانی کا علم ہوگیا‘ ایک گھڑسوار کو حکم دیا کہ گھوڑے کو دوڑا کر شیخ بہاؤ الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کو راستہ سے واپس آنے کو کہے گھڑسوار گھوڑا دوڑا کر شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ گیا‘ اور ان کو حکم سنایا‘ شیخ بہاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ ڈرے کہ اللہ خیر کرے‘ کوئی بے ادبی یاگستاخی تو نہیں ہوگئی ہے۔ شیخ کی خدمت میں پہنچے‘ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے خانقاہ میں قیام کرنے کا حکم فرمایا‘ اور اپنے ایک دوسرے خادم کو حکم کیا کہ سو مرغی کے چوزے اور سو چھریاں لےکر آئے ذرا دیر میں خادم مرغی کے چوزے اور چھریاں لے کر آیا۔ شیخ نے ایک ایک چوزا اور ایک ایک چھری ہر مرید کو دینے کو کہا اور حکم دیا کہ ہر شخص خانقاہ سے باہر جاکر اپنے چوزہ کو کسی ایسی جگہ ذبح کرکے لائے جہاں کوئی دیکھتا نہ ہو‘ ہر مرید چھری اور چوزہ لے کر گیا‘ کوئی دیوار کے پیچھے‘ کوئی درخت کے پیچھے کوئی بند کمرہ میں‘ کوئی کسی اندھیرے حجرہ میں جاکر چوزہ ذبح کر لایا، شیخ رحمۃ اللہ علیہ نےپوچھا: بہاؤالدین زکریا نہیں آئے‘ مریدین نے کہا وہ تو نہیں آئے‘ دیکھئے شیخ کاذرا سا حکم بھی ان سے نہیں مانا گیا۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ یہ سن کر مسکرائے‘ بہت دیر میں رات کو شیخ بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بہت نادم اور شرمندہ روتے ہوئے حاضر ہوئے‘ ان کے ہاتھ میں زندہ چوزہ اور چھری تھی‘ شیخ نے سب مریدین کے سامنے پوچھا بیٹا بہاؤالدین تو چوزہ ذبح کرکے کیوں نہیں لایا؟ کیا تمہیں ذبح کرنا نہیں آتا‘ شیخ بہاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی شرمندگی کے ساتھ عرض کیا: حضرت والا ذبح کرنا تو ٹوٹا پھوٹا ٓآتا ہے مگر آپ نے یہ شرط لگائی تھی کہ ایسی جگہ ذبح کرنا جہاں کوئی نہ دیکھتا ہو یہ شرط مجھے کہیں نہیں ملی‘ شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے زور دےکر کہا‘ کیا کہیں ایسی خلوت نہیں ملی بیٹا جہاں کوئی دیکھتا نہ ہو‘ سعادت مند مرید نے عرض کیا کہ حضرت میں جہاں بھی گیا‘ خلوت اور تنہائی کی کوئی جگہ ایسی نہیں ملی جہاں کوئی دیکھتا نہ ہو میں جہاں گیا اور چاہا کہ چوزہ کو ذبح کروں میں نے دیکھا میرے پیارے اللہ کریم مجھے دیکھ رہے ہیں‘ شیخ بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے معصوم سے اس جواب کو سن کر سارے ناسمجھ مریدوں کی آنکھ کھل گئی کہ سارے مجاہدوں ور اشغال اور ذکر و اذکار سے مقصود ایمان کا یہ مقام احسان حاصل کرنا ہے۔ (تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو کیونکہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو مگر وہ تمہیں دیکھتا ہے) اور ہم سب میں سے یہ مقام احسان شیخ بہاؤالدین زکریارحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہے۔ ایمان کی یہ احسانی کیفیت کہ میں جہاں بھی ہوں اللہ کریم کی نگاہ میں ہوں‘ وہ نسخہ کیمیا ہے جو انسان کو خلوت و جلوت میں گناہوں سے باز رکھنے اور اطاعت و عبادت کی لذت اور مزہ کو دوبالا کرنے والا ہے مگر افسوس کہ غفلت کے پردے در پردے ہمیں اس احساس سے محروم رکھتے ہیں کہ ہر پل احکم الحاکمین رب‘ یوم جزا کے مالک‘ حساب لینے والے رب ہمیں دیکھ رہے ہیں‘ کاش ایمان کا یہ مقام احسان اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمادے‘ تو ہماری زندگی کی ساری چولیں صحیح ہوجائیں۔ آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں